ایک مرتبہ سلطان محمود غزنوی نے ایاز سے وعدہ کیا کہ میں تجھے اپنا لباس پہنا کر اپنی جگہ بٹھادوں گا اور تیرا لباس پہن کر خود غلام کی جگہ لے لوں گا‘ چنانچہ جس وقت سلطان محمود حضرت ابوالحسن سےملاقات کی نیت سے خرقان پہنچا تو قاصد سے یہ کہا کہ حضرت ابوالحسن سے یہ کہہ دینا کہ میں صرف آپ سے ملاقات کی غرض سےحاضر ہوا ہوں لہٰذ آپ زحمت فرما کر میرے خیمہ تک تشریف لے آئیں اور اگر وہ آنے سے انکار کریں تو یہ آیت تلاوت کردینا ’’ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ اپنی قوم کے حاکم کی بھی اطاعت کرتے رہو‘‘ چنانچہ قاصد نے آپ کو جب یہ پیغام پہنچایا تو آپ نے معذرت طلب کی جس پر قاصد نے مذکورہ بالا آیت تلاوت کی۔ آپ نے جواب دیا کہ محمود سے کہہ دینا کہ میں تو اطیعواللہ میں ایسا غرق ہوں کہ اطیعو الرسول میں بھی ندامت محسوس کرتا ہوں۔ ایسی حالت میں حاکم کی اطاعت کا تو ذکر ہی کیا؟ یہ قول جس وقت قاصد نے محمود غزنوی کو سنایا تو اس نے کہا کہ میں تو انہیں معمولی قسم کا صوفی تصورکرتا تھا‘ لیکن معلوم ہوا کہ وہ تو بہت ہی کام بزرگ ہیں‘ لہٰذا ہم خود ہی ان کی زیارت کیلئے حاضر ہوں گے۔اس وقت محمود نے ایاز کا لباس پہنا اور ایاز کو اپنا لباس پہنایا اور خود دس کنیزوں کو مردانہ لباس پہنا کر ان کے ساتھ بطور غلام کے ملاقات کرنے پہنچ گیا۔ آپ نے اس کے سلام کا جواب تو دے دیا مگر تعظیم کیلئے کھڑے نہیں ہوئے اور محمود جو غلام کے لباس میں ملبوس تھا اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ لیکن ایاز جو شاہانہ لباس میں تھا اس جانب قطعی توجہ نہ دی اور جب محمود نے جواب دیا کہ یہ دام فریب تو ایسا نہیں ہے جس میں آپ جیسے شاہباز پھنس سکیں پھر آپ نے محمود کا ہاتھ تھام کر فرمایا کہ پہلے ان نامحرموں کو باہر نکال دو‘ پھر مجھ سے گفتگو کرنا۔ چنانچہ محمود کے اشارے پر تمام کنیزیں باہر چلی گئیں اور محمود نے آپ سے فرمائش کی کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی واقعہ بیان فرمائیے۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت بایزید کا قول تھا کہ جس نے میری زیارت کرلی اس کو بدبختی سے نجات حاصل ہوگئی‘ اس پر محمود نے پوچھا کہ کیا ’’ان کا مرتبہ حضوراکرم ﷺ سے بھی زیادہ بلند تھا؟ اس لیے کہ حضور ﷺ کو ابوجہل‘ ابولہب جیسے منکرین نے دیکھا پھر بھی ان کی بدبختی دور نہ ہوسکی‘‘ آپ نے فرمایا کہ اے محمود! ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی ولایت میں تصرف نہ کرو‘ کیونکہ حضور اکرم ﷺ کو خلفائے اربعہ اور دیگر صحابہ اکرام کے سوا کسی نے نہیں دیکھا جس کی دلیل یہ آیت مبارک ہے ’’ترجمہ: یعنی اے نبی! (ﷺ) آپ ان کو دیکھتے ہیں جو آپ کی جانب نظر کرتے ہیں حالانکہ وہ آپ (ﷺ) کو نہیں دیکھ سکتے‘‘ یہ سن کر محمود بہت محظوظ ہوا۔ پھر آپ سے نصیحت کرنے کی خواہش کی تو آپ نے فرمایا: ’’نواہی سے اجتناب کرتے رہو‘ باجماعت نماز ادا کرتے رہو‘ سخاوت و شفقت کو اپنا شعار بنالو‘ جب محمود نے دعا کی درخواست کی تو فرمایا کہ میں اللہ سے ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ مسلمان مردوں اورعورتوں کی مغفرت فرمادے۔ پھر جب محمود نے عرض کیا کہ میرے لیے مخصوص دعا فرمائیے تو آپ نے کہا کہ اے محمود! تیری عاقبت محمود ہو اور جب محمود نےا شرفیوں کا ایک توڑا آپ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے جو کی خشک ٹکیہ اس کے سامنے رکھ کر جواب دیا کہ اس کو کھاؤ‘ چنانچہ محمود نے جب توڑ کر منہ میں رکھا اور دیر تک چبانے کے باوجود بھی حلق سے نہ اُترا تو آپ نے فرمایا کہ شاید نوالہ تمہارے حلق میں اٹکتا ہے۔ اس نے کہاہاں! تو فرمایا: تمہاری یہ خواہش ہے کہ اشرفیوں کا یہ توڑا اسی طرح میرے حلق میں بھی اٹک جائے لہٰذا اس کو واپس لے لو کیونکہ میں دنیاوی مال کو طلاق دے چکا ہوں۔ محمود کے بے حد اصرار کے باوجود بھی آپ نے اس میں سے کچھ نہ لیا۔ پھر محمود نے خواہش کی کہ بطور تبرک کوئی چیز عطا فرمادیں۔ اس پر آپ نے اس کو اپنا پیراہن دے دیا۔ پھر محمود نے رخصت ہوتے ہوئے عرض کی کہ حضرت آپ کی خانقاہ تو بہت خوبصورت ہے تو فرمایا کہ اللہ نے تجھے اتنی وسیع سلطنت بخش دی ہے پھر بھی تمہارے اندر طمع باقی ہے اور اس جھونپڑی کا بھی خواہش مند ہے۔ یہ سن کر اس کو بے حد ندامت ہوئی اور جب وہ رخصت ہونے لگا تو آپ تعظیم کیلئے کھڑے ہوگئے تو اس نے پوچھا کہ میری آمد کے وقت تو آپ نے تعظیم نہیں کی پھر اب کیوں کھڑے ہوگئے فرمایا: اس وقت تمہارے اندر شاہی تکبر موجود تھا اور میرا امتحان لینے آئے تھے لیکن اب عجز و درویشی کی حالت میں واپس جارہے ہو اور خورشید فقرتمہاری پیشانی پر رخشندہ ہے۔ اس کے بعد محمود رخصت ہوگیا۔ (تذکرۃ الاولیاء صفحہ 388)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں